صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

بارش، ساون، برکھا رت، برسات، آنسو، اردو ادب کا جزو لازم ہیں، لیکن یہ آب یعنی پانی صرف اردو ادب کا ہی نہیں بلکہ زندگی کا بھی جزو لازم ہے کہ جہاں پانی ہے وہاں حیات ہے۔

خدا کی اس وسیع و عریض کائنات میں زمین اب تک کا وہ واحد معلوم سیارہ ہے جہاں پانی موجود ہے، اور پانی ہی کی وجہ سے حیات بھی موجود ہے۔ اب تک سائنس دانوں نے جتنے بھی سیارے دریافت کیے ان میں اب تک حیات نہ دیکھی جاسکی، ہاں البتہ جہاں پانی کے آثار ملے وہاں صرف ایک امکان ظاہر کیا گیا کہ یہاں حیات موجود ہوسکتی ہے۔

گویا ہماری زندگی دولت، شہرت، ملازمت اور کامیابی سے بھی زیادہ پانی کی مرہون منت ہے اور حضرت انسان کی عقل دیکھیں کہ پانی کو اس قدر بے دردی سے لٹا رہا ہے کہ دنیا بھر میں موجود پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، گویا انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی موت بلا رہا ہے۔

روز بروز نئی نئی سامنے آتی تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان جو سنہ 1990 کے بعد سے آبی قلت کا شکار ہونا شروع ہوا ہے تو بہت جلد وہ وقت بھی آنے والا ہے جب پاکستان خشک سالی کا شکار ہوجائے گا، اور یہ وقت زیادہ دور بھی نہیں، صرف 8 برس بعد یعنی سنہ 2025 میں۔

گویا اب ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال ہے کہ پانی کا مستقبل کیا ہے؟ اور چونکہ ہماری زندگی پانی کے بغیر ممکن نہیں تو ہمارا اور ہماری زندگیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟؟

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ پاکستان کو اس مقام پر لانے کی وجہ عرصہ دراز سے حکومتی غفلت ہے جو اگر چاہتیں تو ابتدا سے ہی ڈیمز یا دیگر ذخائر کی صورت میں پانی کو ذخیرہ کر کے رکھ سکتی تھیں۔ پاکستان کوئی بارش یا مون سون کی کمی کا شکار ملک نہیں۔ یہاں بے شمار آبی ذخائر بھی موجود ہیں (جو بدقسمتی سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں) جبکہ ہر سال ہونے والی بارشیں سیلاب بن کر ہمارے نصف انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرجاتی ہیں۔

لہٰذا آج ہم آپ کو ایک ایسے مقام پر لیے جارہے ہیں جہاں بظاہر حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی، اور جب وہاں حکومت نہیں تو حکومتی غفلت بھی نہیں۔ چنانچہ چند مخیر حضرات اور سماجی اداروں کی بدولت اس مقام پر قلت آب کا مسئلہ خاصی حد تک نہ صرف حل ہوچکا ہے، بلکہ ترقی یافتہ شہروں کے لیے بھی ایک مثال ہے کہ جب دلوں میں احساس اور انسانیت سے محبت زندہ ہو تو کس طرح آنے والے کل کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔


سندھ کا پیاسا کوہستان

کوہستان کا نام سنتے ہی ذہن میں صوبہ خیبر پختونخواہ کا ضلع کوہستان در آتا ہے جو آبی ذخائر، قدرتی وسائل، اور خوبصورت فطری نظاروں سے بھرپور ایک حسین مقام ہے۔ جہاں جانے کے بعد خیال آتا ہے، ’گر فردوس بریں بہ روئے زمیں است، ہمیں است ہمیں و ہمیں است‘۔

لیکن جس کوہستان کی ہم بات کر رہے ہیں وہ صوبہ سندھ کا ایک پیاسا اور بنیادی ضروریات سے محروم گاؤں ہے جہاں وقت ابھی بھی 19 ویں صدی میں ٹہرا ہوا ہے۔

صوبائی حلقہ بندی میں پی ایس 85 ٹھٹہ 2 کے درمیان کہیں موجود یہ گاؤں پیپلز پارٹی کی رہنما سسی پلیجو کے حلقہ انتخاب میں آتا ہے مگر گمان یہی ہے کہ سندھ سے پہلی بار انتخابات سے براہ راست فاتح بن کر اسمبلی پہنچنے والی پہلی خاتون سسی پلیجو نے شاید اس گاؤں میں قدم بھی نہ رکھا ہو۔

ٹھٹہ کی طرف جاتے ہوئے ایک کچا راستہ آپ کو اس صحرا نما گاؤں کی طرف لے جاتا ہے جس کا نام کوہستان ہے۔ جابجا اڑتی خاک سے اٹا ہوا یہ کوہستان اس کوہستان سے بالکل مختلف ہے جہاں کوہ (پہاڑ) ہیں، پانی ہے، ہریالی ہے اور خوشی ہے۔ اس کوہستان میں چہار سو ریت ہے، ویرانی ہے، غربت ہے اور شاید ناامیدی بھی۔

گو کہ اب یہاں حالات پہلے سے نسبتاً بہتر ہیں، لیکن ہم آپ کو اس زندگی کی ایک جھلک ضرور دکھائیں گے جو یہاں پانی کی ’آمد‘ سے پہلے تھی۔


صنف نازک کے نازک کاندھوں پر بھاری بوجھ

جس طرح خالق کائنات نے زندگی کو جنم دینے کی ذمہ داری ہر صورت عورت کو دے رکھی ہے اور چاہے کچھ بھی ہوجائے مرد اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا تو دور اس کا حصہ بھی نہیں بن سکتا، اسی طرح خواتین پر ایک اور خود ساختہ ذمہ داری عائد ہے جو زمین کے خداؤں نے اس پر لازمی قرار دے رکھی ہے۔ اور وہ ذمہ داری ہے پانی بھر کر لانا، چاہے اس کے لیے کتنا ہی طویل سفر کیوں نہ کرنا پڑے۔

اندرون سندھ میں رہنے اور وہاں کے حالات سے واقفیت رکھنے والوں کو یقیناً علم ہوگا کہ سندھ کے گاؤں دیہاتوں میں پانی بھر کر لانا عورتوں کی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری ایسی ہے جس سے فرار کسی صورت ممکن نہیں۔ چاہے کوئی بیمار ہو، کمزور ہو یا حاملہ ہو، اسے ہر صورت پانی بھرنے جانا ہے۔

حتیٰ کہ بعض حاملہ عورتیں پانی بھرنے کے اس سفر کے دوران بچوں کو جنم دیتی ہیں اور تھوڑی دیر کے وقفے کے بعد پھر سے ہمت باندھ کر اپنا سفر شروع کرتی ہیں اور اب جب وہ پانی کے مٹکے لے کر گھر پہنچتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں ایک نومولود بچہ بھی ہوتا ہے۔ آخر کو دونوں ’ذمہ داریاں‘ عورت کی ہی ہیں اور ہر صورت اسی کو نبھانی ہیں۔

مرد اس ذمہ داری سے تو آزاد ہیں ہی، ساتھ ہی خواتین کو یہ خیال چھو کر بھی نہیں گزرتا کہ مرد بھی کبھی اس مشقت میں ان کا ہاتھ بٹا لیا کریں۔ یعنی وہی بات کہ جب ازل سے لکھا گیا کہ بچہ پیدا کرنا عورت کا کام ہے تو یہ کام کسی مرد سے کیسے کہا جاسکتا ہے، تو یہ ذمہ داری بھی ازل سے عورت پر عائد ہے کہ پانی بھر کر لانا ہے تو اسی نے لانا ہے، ورنہ مرد گھر میں فارغ بھی ہوں گے تو بھی اس کام کے لیے نہیں جائیں گے۔

یہ سفر دن میں ایک بار نہیں ہوتا۔ اسے کم از کم دن میں 3 بار انجام دینا پڑتا ہے تاکہ اہل خانہ کی پانی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ جب چھوٹی بچیاں کچھ وزن اٹھانے کے قابل ہوجاتی ہیں تو انہیں بھی ایک چھوٹا سا برتن پکڑا کر ہم سفر بنا لیا جاتا ہے کہ چلو کم از کم اپنے حصے کا پانی ہی بھر کر لے آئیں گی۔

سروں پر پانی کے وزنی مٹکے اور ڈرم بھر کر لانے سے خواتین کی جو حالت ہے وہ تو جسمانی ساخت سے عیاں ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی انہیں کئی سنگین طبی مسائل لاحق ہوجاتے ہیں جیسے ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا اپنی جگہ سے کھسک جانا، ہڈیوں جوڑوں اور پٹھوں کا درد، وزن میں کمی، قوت مدافعت میں کمی۔

ایسے گاؤں دیہاتوں میں خال ہی کوئی عورت خوبصورت بالوں کی مالکہ نظر آئے گی کیونکہ روز اول سے لکھی اس مشقت نے ان کے بالوں کی قربانی لے لی ہے اور بہت کم عمری میں ان کے بال جھڑنا شروع جاتے ہیں۔

یہ صورتحال کم و بیش سندھ کے ہر اس گاؤں میں نظر آئے گی جہاں آبی ذخائر کی کمی ہے۔

ضلع ٹھٹھہ کا علاقہ کوہستان بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہاں بھی عورتوں کو چند مٹکے پانی بھرنے کے لیے 3 سے 5 کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے اور دور دور واقع عارضی ندی نالوں سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔ یہ کام دن میں کم از کم 3 بار انجام دیا جاتا ہے۔

جب وہاں موجود بچیوں کی ڈھیر ساری تعداد کو دیکھ کر سوال کیا گیا کہ کیا یہ بچیاں اسکول نہیں پڑھنے جاتیں؟ تو ان کے والدین کا جواب تھا، ’وقت نہیں ہے جی۔ پڑھنے جائیں گی تو پانی کون بھر کر لائے گا‘۔

والدین خاص طور پر مردوں کی اکثریت اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتی ہے لیکن وہ ایک سماجی ذمہ داری جو ان کی لڑکیوں اور عورتوں پر عائد کردی گئی ہے وہ خود بھی اس کے آگے مجبور ہیں۔ انہوں نے اپنے نانا، دادا کے خاندان میں کسی مرد کو اپنی عورت کے ساتھ جا کر پانی بھرتے نہیں دیکھا، چنانچہ وہ اس خیال کو بھی معیوب سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ جا کر پانی بھریں۔

اپنی خاندانی روایت کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے اپنی نئی نسل کو بھی یہ نہیں سکھایا کہ وہ اپنی ماؤں بہنوں اور بیویوں کے ساتھ جا کر پانی بھریں، البتہ ان کے خیالات میں اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے، ’وقت بدل رہا ہے، ہمارے لڑکوں کو اگر خود ہی احساس ہوجائے اور وہ اس مشقت میں اپنی ماں بہنوں کا ہاتھ بٹانے لگیں تو ہم بھلا کیوں روکیں گے‘۔

اپنے نہ جانے کی وہ ایک تاویل یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر ہم پانی بھرنے جائیں تو کام دھندے پر کون جائے گا۔ تاہم ان کی یہ تاویل قابل قبول نہیں تھی کیونکہ اکثر گھروں میں مرد بے روزگار فراغت سے بیٹھے ہوئے تھے یا جابجا سجی ہوئی مردوں کی محفلیں بتارہی تھیں کہ انہیں غم روزگار سے کوئی واسطہ نہیں۔


تبدیلی کیسے آئی؟

کہتے ہیں جس کا زمین پر کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا ہوتا ہے۔ یہاں حکومتی غفلت بھی ان لوگوں کے لیے ایک رحمت ثابت ہوئی کہ اگر یہاں حکومتی افراد آ بھی جاتے تو بھی وعدے اور تسلیاں دلاسے دے کر چلے جاتے، کام کبھی نہیں ہونا تھا۔ اس کی مثال گاؤں میں 8 برس قبل لگایا گیا وہ آر او پلانٹ ہے جو تاحال فعال نہ ہوسکا۔

خیر خدا نے ان پیاسوں پر نظر کرم کی اور ایک سماجی تنظیم کو ان کی مدد کا وسیلہ بنایا جو کسی طرح یہاں آ پہنچی۔

انڈس ارتھ ٹرسٹ نامی اس تنظیم نے بین الاقوامی مشروب ساز کمپنی کے تعاون سے ’واٹر فار وومین‘ یعنی ’پانی ۔ خواتین کے لیے‘ کے نام سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا۔

جب انہوں نے اس کام کا آغاز کیا تو خود وہاں کے لوگوں اور سوشل میڈیا پر بھی ان سے سوال کیا گیا کہ صرف خواتین کے لیے ہی پانی کیوں؟ کیا مردوں کو پانی کی ضرورت نہیں؟ اور ادارے کا جواب تھا، کہ جب پانی بھر کر لانا صرف خواتین ہی کی ذمہ داری ہے تو پھر پانی تک رسائی کے لیے کیا جانے والا کام بھی خواتین ہی کے لیے ہوگا۔

کوہستان میں پانی کا ذریعہ وہ دور دراز واقع تالاب تھے جو بارشوں کے موقع پر بھر جاتے۔ تاہم گرمیوں کی تیز چلچلاتی دھوپ ان تالابوں کو بہت جلد خشک کردیتی۔

مذکورہ تنظیم نے کوہستان کے 34 گاؤں میں پانی کی فراہمی کا کام کرنے کی ٹھانی۔

منصوبے کے تحت سب سے پہلے بارش کے پانی کو طویل المدتی بنیادوں پر ذخیرہ کرنے پر کام شروع کیا گیا۔ اس کے لیے کوہستان میں موجود 18 بڑے تالابوں کو گہرا کیا گیا تاکہ ان میں زیادہ سے زیادہ بارش کا پانی محفوظ ہوسکے۔

بعد ازاں پانی جمع ہوجانے والے راستوں پر مزید 10 ریزروائرز یا ذخیرہ گاہ بنائے گئے۔ ان ذخیرہ گاہوں کو 30 فٹ تک گہرا کیا گیا ہے۔

اس کے بعد جب مون سون کا موسم آیا اور بارشیں شروع ہوئیں تو کوہستان کی سرحد پر واقع کیرتھر کی پہاڑیوں سے پانی بہہ کر ان ذخیرہ گاہوں میں جمع ہونے لگا اور ایک وقت آیا کہ تمام ذخائر پانی سے لبا لب بھر گئے۔

بعد ازاں ان ذخائر کے کناروں پر ہینڈ پمپس بھی لگا دیے گئے تاکہ جب پانی کی سطح نیچی ہوجائے تو خواتین کو پانی بھرنے میں مشکل کا سامنا نہ ہو۔

انڈس ارتھ اب دیہاتوں کے قریب 20 کے قریب کنویں تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ خواتین کو پانی کے حصول کے لیے میلوں کا سفر نہ طے کرنا پڑے۔

اس تمام عمل سے اب کوہستان پانی کے معاملے میں خود کفیل ہوگیا ہے جہاں سارا سال پانی دستیاب رہے گا۔ اس پانی سے مستفید ہونے والے 34 دیہاتوں کے 15 ہزار افراد پانی کی فراوانی سے نہایت خوش ہیں اور اب اپنے علاقے میں شجر کاری اور زراعت کا آغاز بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس صحرائی علاقے کے بنجر پن اور خشکی کو کم کیا جاسکے۔


خواتین کے لیے ایک اور سہولت

جب انڈس ارتھ ٹرسٹ نے یہاں کام کرنا شروع کیا تو دیگر مخیر افراد کی نظروں میں بھی یہ گاؤں بالآخر آ ہی گیا۔ ایسے ہی ایک مخیر شخص کے تعاون سے یہاں خواتین کی سہولت کے لیے ایک اور شے متعارف کروادی گئی۔

یہ واٹر وہیلز تھے یعنی پانی کے گیلن جو باآسانی کھینچ کر لائے جاسکتے تھے۔ گاؤں والوں کو بڑی تعداد میں ان کی فراہمی کے بعد اب خواتین کا سروں پر پانی بھر کر لانے کا مسئلہ بھی خاصا حل ہوچکا ہے۔

عام مٹکوں یا ڈرموں میں ایک سے 2 لیٹر پانی کے برعکس اس واٹر وہیل میں 40 لیٹر تک پانی بھرا جاسکتا ہے جو ایک گھر کی پورے دن کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ گویا خواتین کو دن میں کئی بار سفر کرنے کی اذیت سے بھی نجات مل گئی ہے۔


یہ سفر جو ایک اداسی اور نا امیدی کا سفر تھا اپنے اختتام پر امید کی بھرپور روشن کرن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ گاؤں والوں کے چمکتے چہرے بتا رہے تھے کہ ان کی زندگیاں کس قدر تبدیل ہوچکی ہیں۔ اب یقیناً وہ اپنی بچیوں کو پڑھنے بھی بھیج سکتے ہیں، اور اپنا وقت بچا کر دیگر صحت مند سرگرمیوں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔

گو کہ ان گاؤں والوں کی مدد کے لیے اللہ نے کسی اور کو سیلہ بنا کر بھیجا، لیکن ہم تمام تر وسائل کے ہوتے ہوئے اسے اپنے لیے ایک مثال بھی سمجھ سکتے ہیں جس کے بعد کوئی امکان نہیں رہے گا کہ ہماری بارشوں کا پانی سیلاب بنے، ضائع ہو، اور پھر ہم خشک سالی کا شکار ہوجائیں۔