Climate Change Effects on the Vultures

عالمی سطح پر گدھ کی وسیع جاگرفیائی حدود ہیں. جنوبی ایشیا میں گدھ کی 9 نسلیں پائی جاتی ہیں،جس میں سے آٹھ نسل پاکستان میں موجود ہیں گدھ پرندے کا شمار بڑی جسامت والے پرندوں میں ہوتا ہے، بڑی جسامت والی گدھ پانچ سال بعد ایک انڈہ دیتی ہے اور چھوٹی جسامت والی گدھ 3 سال بعد دو انڈے دیتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی آبادی آہستہ آہستہ بڑھتی ہے.

گدھ کا انحصار اکثر مردہ جانور کھانے پر ہے، عمدہ طریقے سے وہ مردہ جانوروں کے ختم کر دیتی ہے اور یے ماحول دوستی کا ثبوت ہے. ہمارے آس پاس ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے میں گدھ پرندہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، یہ مردہ جانوروں کو کھا کر ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں معاونت فراہم کرتا ہے، گدھ اس گندگی کو بھی ختم کرتی ہے جس میں سے کئی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے. گذشتہ دو دہائیوں سے گدھ کا نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے-

*گدھ کی تعداد میں کمی کے اسباب *
گدھ کے مرنے کی اہم وجہ وہ مردہ مویشی کھانا ہے جس کو ڈائکلوفینک سوڈیم، کیٹوپروفن، کئرپروفین،نئمسولائیڈ ،فلوکسین ،ایکلوفینک یا فینائلبیوٹازون انجکشن لگی ہوئی ہوتی ہے، ان ادویات کے زہریلے اثرات کے وجہ سے گدھ پرندہ مر جاتا ہے- اس کے علاوہ جنگلات میں درخت کے کاٹنے سے ان کے گھونسلے کو نقصان بھی ایک وجہ ہے.

* گدھ کے نسل کو بچانے کے لیے کیا کرنا چاہیے *
مذکورہ نقصان دہ ادویات کے بجائے مویشیوں کو میلوسیکیم انجکشن لگانا چاہیے
جس جانور کو مذکورہ نقصان دہ ادویات لگی ہوں اور وہ جانور 10 دن کے اندر مر جائے تو اس کو زمین کے اندر مدفون کرنا چاہیے
ان درختوں اور پہاڑیوں کی حفاظت کی جائے جہاں پر گدھ کے گھونسلے یا ان کے انڈے موجود ہوں

یاد رہے کہ تھرپارکر کو گدھ کے لیے محفوظ پناہ گاہ قرار دیا گیا ہے
قدرتی حیات کے تحفظ کے منصوبے پر آئی یو سی این نے رپورٹ شائع کی ہے جس میں کویلہ منصوبے پر کام کرنے والی سندھ اینگرو کول مائيننگ کمپنی نے معاونت فراہم کی ہے.
گذشتہ کئی سالوں سے پورے ملک پاکستان میں گدھ کے تعداد میں مسلسل کمی کے باوجود دنیا میں ماحولیاتی تحفظ کے مستند ادارے آئی یو سی این نے تھرپارکر کو نایاب پرندوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ قرار دیا یے.

ایسا انکشاف آئی یو سی این کی جانب سے کی گئی ایک سروے میں کیا گیا ہے. سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تھرپارکر کے ننگرپارکر کا پہاڑی سلسلہ اور گوڑانو تالاب والے علاقے گدھ کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ہیں.

آئی یو سی این نے یہ سروے محکمہ جنگلات، زولاجیکل سروے آف پاکستان، بانھن بیلی کے تعاون اور تھر کول منصوبے پر کام کرنے والی سندھ اینگرو کول مائيننگ کمپنی کے مالی تعاون سے گدھ کے بچاؤ والے منصوبے کے تحت کی.

اس سروے کے دائرہ پورا صوبہ تھا چونکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے تھرپارکر سندھ کا وہ علاقہ ہے جہاں گدھ کی تعداد زیادہ ہے. گدھ وہ مردہ خور پرندہ ہے جو کے مردہ جانوروں کو کھاتے ہیں اور ایسی مشق کے ذریعے ماحول میں بہتری، ماحول کو صاف کرنے سمیت بیماریوں کو پھیلنے سے بھی بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں.

رپورٹ کے مطابق گذشتہ بارشوں سے قبل 6 مختلف تنظیموں آئی یو سی این کے ماہرین، پرائیویٹ کنسلٹنٹ، آرنتھالاجسٹ، وٹنیرین اور فیلڈ ایکالاجسٹ کی جانب سے سروے کیا گیا،

سروے کے مطابق 450 سے زائد وائیٹ بیکڈ، لانگ بلڈ، ریڈ ھیڈیڈ، مصری گدھ تھرپارکر میں پائی گئی اور کچھ کیرتھر پہاڑ میں بھی موجود ہیں.
تھرپارکر میں گوڑانو تالاب جوکہ تھر کول مائینز کے وجہ سے بنا اور وہ پرندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، وہاں پر 425 گدہ جس میں وائیٹ بیکڈ، ریڈ ھیڈیڈ اور مصری نسل کی گدھ دیکھی گئیں.

سروے رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ سندھ میں جہاں گدھ موجود ہیں وہاں پر گدھ کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بنائی جائیں، جس میں تھرپارکر، کھیر تھر نیشنل پارک اور گورکھ پہاڑی اراضی شامل ہے.
رپورٹ میں یے بھی کہا گیا ہے جانوروں کے لیے متبادل ادویات جوکہ گدھ کے لیے زہریلی نہیں ہیں وہ استعمال کی جائیں، مشترکہ قانون کے تحت ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی کی جانب سے ایسی زہریلی ادویات پر پابندی عائد کر دی جائے جوکہ گدھ کے لیے نقصان دہ ہے. ڈائکلوفینک پر پاکستان میں 2006 میں پابندی لگائی گئی تھی، لیکن اب بھی مارکیٹ میں ان اجزا والی دوایں دستیاب ہیں –

آئی یو سی این کے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر نوید سومرو کے مطابق اس سے قبل یہ سروے سندھ میں چھوٹے پیمانے پر صرف ننگرپارکر میں ہوتے تھے. جوکہ گدھ کی آبادی کا آخری محفوظ پناہ گاہ تھا یا وہ سروے صرف بریڈنگ والی سیزن میں کیے جاتے تھے.

سندھ اینگرو کول مائيننگ کمپنی کے نصیر میمن کے مطابق تھر کے فطری ماحول کا تحفظ ہماری بنیادی پالیسی کا حصہ ہے. تھر میں گدھ کے تحفظ کے لئے آئی یو سی این اور پاکستان میں پرندوں کے ماہرین کی خدمات حاصل کی ہیں.

پاکستان میں پرندوں کے معاملات کے ماہر ڈاکٹر زیڈ بی مرزا کے مطابق آئی یو سی این کی رپورٹ طبعی حصوں خاص طور پر چراگاہیں اور جہاں، چارے والے درختوں والے سندھ کے علاقوں میں بدقسمتی سے جانوروں میں استعمال ہونے والی ادویات گدھ کے لیے زہریلی ہیں- ڈاکٹر مرزا نے واضع کیا کہ سروے رپورٹ کے خاص مقامات پر گدھ کے محفوظ پناہ گاہ سمیت بچاءُ کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے- انہوں نے کہا پاکستان ایشیا کے ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں پر گدھ کے 9 میں 8 اقسام پائے جاتے ہیں، پر بدقسمتی سے 1990 کے بعد گدھ کے تمام نسلوں کی آبادی میں کمی دیکھی گئی ہے، جس کے تحفظ کے لئے اقدامات لینا لازمی ہے.
اسباب کے طور پر رپورٹ میں ظاہر کیا گیا یے.