Impact of COVID-19 on the environment

!!کورونا سے ماحولياتیآلودگی میں کمی تک کا سفر

!!صنم جونيجو

بہت عرصے کے بعد جب بہت سارے شہروں کا چہرہ صاف ہو کر دکھنے لگا تھا تو کورونا وبا سےزیادہ ماحولیاتی مسیحا لگنے لگی تھی جہاں پر کئی زندگیاں جان سے ہاتھ دھوکر بیٹھیں وہاں پر لاکھوں لوگوں کے لئے خوبصورت ماحول کی فراہمی بھی ممکن ہوئی، میں ایک پل کے لئے سوچتی ہوں کہ لاکھوں لوگوں کی قربانی پر آنکھےں نم کروں یا زندگیوں کو خوبصورت اور پاکیزہ ماحول فراہم ہونے پر کسی اونچی چٹان پر کھڑی ہوکر خدا کا شکر ادا کروں اور زور زور سے تالیاں بجاﺅں، پتا ہے لوگ مجھے اس عمل پر طعنے دینگے اور بہت ساری باتیں بنائیں گے لیکن جب وہ فضا میں نکل کر صاف ہوا میں سانس لیں گے تو میرے ساتھ مل کر تالیاں بجائیں گے اور مجھے یقین ہے یہ دنیا ایک نہ ایک دن ان سارے لوگوں کو شہیدِ ماحولیات کہے گی جو اس وبا کا شکار ہوئے اور جن کی وجہ سے کئی شہروں کے چہرے کئی دہائیوں کے بعد دکھے گئے۔

ماہرین کے مطابق صنعتوں میں کورونا وبا کے دوران سرگرمیاں کم ہونے کی وجہ سے صنعتی شعبہ میں پانی کی کھپت تقریباً کم ہو گئی، ہوٹل اور ہیلتھ کلب بھی پوری صلاحیت سے کام نہیں کر رہے ہیں اس لئے پانی کے استعمال میں کمی دیکھی گئی ہے۔ لوگ ہوٹل اور ریستورانوں کے مقابلے میں گھر میں پانی کےساتھ زیادہ کار آمد ہوئے ہیں اور پانی کی اس بچت کو زرعی شعبہ میں استعمال میں لایا گیا جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی میں کافی حد تک بہتری نظر آئی۔ ماہرین کے مطابق کارخانوں اور سفر کے لئے ایندھن میں طلب کی کمی کی وجہ سے بھی وبائی امراض میں کافی حد کمی نظر آئی کیونکہ یہ ایندھن دھند کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں آبی آلودگی کی وجہ سے لاہور اور کراچی کو سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں شامل کیا گیا ہے۔ ایندھن کی آلودگی جانوروں اور کیڑوں، جنگلی حیاتیات پر اس کے اثرات کے علاوہ ایندھن کی آلودگی آبپاشی کے لئے پانی کو غیر موزوں بنا سکتی ہے اور آبپاشی کے شعبے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

جنگلات کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ شروع سے ہی انسان کے لئے باعث نعمت رہے ہیں۔ اس کے بعد انسانی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی ضروریات زندگی بھی بڑھتی گئی۔ بات ہو رہی ہے قدرت کے نظام کی۔ قدرت کے اس نظام کا ایک حصہ فطرت کا حسین ہونا بھی ہے اور فطرت کے اس حسن کو برقرار رکھنے کے لئے جہاں پر اللہ تعالیٰ نے اور لوازمات پیدا کئے وہیں پر درخت بھی پیدا کئے۔ پھول اور سبزے کو اگایا قدرت کے اس نظام کو نابود کرنا انسان کے لئے بہت ہی خطرناک ہے۔ جب بھی ہم درختوں کو دنیا سے الگ کر کے نہایت غور سے دیکھیں گے تو پوری دنیا ایک ویرانے کی طرح نظر آئے گی۔ اگر دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دنیا میں وہ ممالک زیادہ غربت کا شکار ہیں جہاں پر جنگلات نہیں ہیں یا ضرورت سے بہت کم ہیں۔ انہی ممالک میں موسمیاتی تبدیلیاں سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہمارے سامنے بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے ہم سبق حاصل کر کے قدرت کے اس عطیے کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یہی درخت آب و ہوا کو معقول رکھتے ہیں اور انسان کے لئے ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ یہی درخت موسمیاتی تبدیلی پر اثر انداز ہوتے پیں اور ان جنگلات کے خاتمے کا سب سے بڑا سبب ہمارے ملک میں پانی کی قلت بھی ہے۔ جس کی وجہ سے جنگلات کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے اور بہت سے ایسے ممالک ہیں جو پانی کی قلت کو بھی موسمیاتی تبدیلی کا سبب مانتے پیں۔ اس حوالے سے دنیا بھر کو گلوبل وارمنگ اور دیگر موسمیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ان چیلنجز کو کم کرنے کے لئے سب سے موثر طریقہ پانی کا بہترین استعمال ہے۔ جب بھی توانائی کا بحران ہوتا ہے بالخصوص جلانے کے لئے مٹی کا تیل اور کوئلہ میسر نہیں ہوتا تو اس وقت درخت ہمارے کام آتے ہیں اور اسی طرح ہمارے چولہے بھی بجھ نہیں پاتے۔ ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر درخت نہ ہو تو ہم ایندھن کے طور پر گوبر جلاتے پیں۔ گوبر عام طور پر کھیتوں میں کھاد کے طور پر استعمال پوتا ہے جس سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ درختوں کے نہ ہونے سے ہم اضافی زرعی پیداوار سے محروم ہو جاتے پیں۔ گزشتہ چند سالوں میں توانائی کے بحران نے جو دنیا کی حالت بنائی اس کو آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا اور آئندہ ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے سائنسدان اس بارے میں سوچ رہے ہیں کہ سمندر اور درختوں کی بدولت کس طرح توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے اور درختوں سے کیسے توانائی حاصل کی جائے۔

اگر دیکھا جائے تو درخت قدرت کا تحفہ نہ پریہ قدرت کا ایک معجزہ ہے۔ اس کے پتے کی نوک سے لے کر جڑ کے آخری سرے تک اس کا ہر ایک حصہ کسی نہ کسی طرح کار آمد ہے اور اس کی اہمیت کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ وہ قدرت کے ایک عجیب نظام کے تحت سرگرم عمل رہتا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف انسانیت کی خدمت ہے۔ اتنی ترقی کے باوجود دنیا ابھی تک درختوں کے بہت سارے فوائد سے نا آشنا ہے۔ آیئے یہ عہد کریں کہ قدرت کے ان شاندار تحفوں اور وفادار ساتھیوں کے لئے کچھ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آخر میں وہ ہمارے ساتھ شکوہ کریں کہ ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے کمیونیکیشن سپیشلسٹ امجد جمال نے کورونا وبا کو موسمیاتی تبدیلی پر اچھے اثرات مرتب ہونے کا اشارہ دیا ہے۔ وہیں پر ان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کے کچھ برے اثرات بھی دیکھنے میں آئے ہیں جیسا کہ لاک ڈائون کے دوران بڑھتی ہوئی ہوم ڈیلیوری اور آن لائن شاپنگ میں اضافہ نظر آیا جس کے لئے پلاسٹک کی بہت پیکجنگ کی ضرورت ہوتی ہے اور خوردہ فروشوں نے ایک بار کاغذی تھیلوں کی بجائے ان پلاسٹک بیگز کا دوبارہ استعمال شروع کر دیا جو کہ وبائی امراض کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ امجد جمال کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کے دوران سرجیکل ماسکس، باڈی بیگز، حفاظتی آلات اور دستانوں کی پیداوار میں ریکارڈ حد تک اضافہ نظر آیا۔ یہ تمام فضلہ جس کو ٹھکانے لگانا ایک بہت دشوار گزار مرحلہ ہے۔ اگرچہ اس فضلے کو صحیح طریقے سے ضائع نہ کیا جائے تو یہ ایک بہت بڑا چیلنج بن جائے گا جس کا براہ راست اثر ماحول پر ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ 80 لاکھ ٹن کچرا سالانہ سمندر میں گرتا ہے اور یہ شرح ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ اگرچہ دیکھا جائے تو مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کئی محاذوں پر سخت متاثر ہوتی ہے۔ ہمیں گرین ہائوس گیسز کے اخراج کو بڑے پیمانے پر کم کرنے اور گلوبل وارمنگ کو محدود حد تک کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے جس کی وجہ سے درجہ حرارت، بارشوں میں اضافہ اور متعدد بیماریوں کے خطرے کو محدود کرنے میں مدد مل سکے گی۔

انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل مارک اسمتھ کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر پانی کی حفاظت پر اتنا دباؤ ہے جتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔ پانی کے وسائل پر دباؤ تبدیل ہو رہا ہے – چونکہ آبادی میں اضافے سے تازہ پانی کی فی کس دستیابی میں کمی آتی ہے،انہوں نے کہا کہ زراعت کے لیے پانی کی بڑھتی ہوئی طلب اور شہروں کے پھیلاو سے بھی پانی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم جو گندا پانی ضائع کرتے ہیں اس کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے لیے جاگنا ہوگا – ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی پانی کی تبدیلی ہے اور اس وجہ سے پانی کی حفاظت کبھی زیادہ اہم یا زیادہ ضروری نہیں رہی۔ سمتھ نے بتایا کہ پاکستان اور سندھ طاس کو انہی چیلنجوں کا سامنا ہے، پاکستان میں پانی کے انتظام کے لیے ایک تبدیلی کے سفر کا آغاز ہونا چاہیے – تاکہ غریب اور پسماندہ کمیونٹیز اور پاکستان کے تمام لوگوں کی حفاظت کی جا سکے۔

آئی ڈبلیو ایم آئی کے کنٹری نمائندے ڈاکٹر محسن حفیظ نے بتایا کہ پاکستان کو 2035 تک پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں۔ “COVID-19 نے پانی کی فراہمی کے نظام کی لچک کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر بھی زور دیا پاکستان کو 2047 میں اپنی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر ایک اعلیٰ متوسط آمدنی والا ملک بننے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی سرمایہ کاری اور پالیسیوں کو تحقیق کے ذریعے مطلع کرنے کی ضرورت ہے، مفروضوں سے نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مفروضے کتنے ہی قابل فہم ہوں ۔

ڈاکٹر محسن حفیظ نے کہا کہ بہترین بین الاقوامی سائنسی طریقہ کار اور مستقبل کی سرمایہ کاری کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے تاکہ سندھ طاس میں آب و ہوا کے لیے مزید لچکدار پانی اور زمینی حل تیار کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل اختراعات، موسمیاتی لچکدار حل، فطرت پر مبنی حل، اور پانی کے تناظر میں خواتین کی قیادت اور میڈیا کے کردار پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔بنیادی مقصد مختلف شعبوں کی مسابقتی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکمت عملیوں کی نشاندہی کرنا، آب و ہوا کی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے پائیدار پانی کے انتظام کی حکمت عملیوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔