مطیع اللہ مطیع
یہ 90کی دہائی کی بات ہے کہ جب وہ 10سال کابچہ تھا تواس نے اپنے گھر کو چلانے کا فیصلہ کیا اور یوں اس نے اپنی زندگی کے 32سال بھٹے (خشت )کے چمنیوں کے سائے تلے گزاردئیے۔
بیالیس سالہ منیر سولنگی کوئٹہ سمیت صوبے کے اکثر بھٹہ (خشت) میں بطور مزدور کام کرچکے ہیں ۔
منیر سولنگی بتاتے ہیں کہ ”بھٹہ (خشت) کی چمنیوں سے نکلنے والی دھویں سے نہ صرف مزدور دمہ (سانس لینے میں دشواری) جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں بلکہ گردونواح میں رہنے والے افراد بھی متاثر ہوتے ہیں ۔دھویں کے اثرات سے میرے گھر کی خواتین بھی محفوظ نہیں میری والدہ ،ساس اور گھر کی دیگر کی خواتین بھی دمے کی بیماری کاشکار ہیں ”۔
بھٹہ (خشت ) میں کام کرنے والے مزدور اور اطراف میں آبادی بھی چمنیوں سے نکلنے والی دھویں کی رحم وکرم پر ہیں اور ان کے پاس احتیاطی تدابیر ،ہنگامی صورتحال میں میڈیکل اور دیگر سہولیات میسر نہیں ۔
منیر سولنگی بتاتے ہیں کہ ”بلوچستان میں مزدوروں کو پنجاب طرز کی سہولیات بھی میسر نہیں ،میرے ساتھ کام کرنے والے کئی مزدوروں کوصحت کے مسائل کاسامنا ہے اور یہ کام انتہائی مشکل ہے ۔سردیوں اور بارشوں کے دنوں میں کام بند ہوجانے کی وجہ سے ہمیں مالی مشکلات کاسامنا بھی رہتاہے ”۔
انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ولی خلجی کے مطابق بلوچستان بھرمیں 500سے زائد بھٹہ (خشت) ہیں جن میں سے محض10بھٹیاںزگ زیگ کے سسٹم پر منتقل کی جاچکی ہیں ۔ماہرین کامانناہے کہ زگ زیگ طرز پربھٹیوں کی منتقلی سے فضائی آلودگی پرنصف حد تک قابو پایاجاسکتاہے ۔اس وقت کوئٹہ کے نواح میں پرانی طرز پر قائم خشت بھٹیوں سے نکلنے والا دھواں کوئٹہ کے ماحول کوآلودہ بنانے کا سبب بن رہاہے مزدور وں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ورکرز فیڈریشن بلوچستان کے جنرل سیکرٹری پیر محمد کاکڑ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کاروبار سے اس وقت 45سے50ہزار لوگ منسلک ہیں جو کہ براہ راست آلودگی سے متاثر ہورہے ہیں ۔ائیرکوالٹی انڈیکس کے مطابق کوئٹہ میں آلودگی 2.5پرٹیکیولیٹ میٹرز ہے جو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے گائیڈلائنز سے 4گنا زیادہ ہے ۔ائیر کوالٹی انڈیکس کے رپورٹ برائے سال 2020ء کے مطابق جنوبی ایشیا دنیا کا سب سے آلودہ ترین خطہ قراردیاگیاہے دنیا کے 50آلودہ ترین شہروں میں پاکستان کے 5شہر شامل ہیں جن میں لاہور 18ویں ،بہاولپور 19ویں جبکہ فیصل آباد 29ویں ،گجرانوالہ 41،مرید کے 43ویں نمبر پر ہے ۔
ماہر ماحولیات فیض کاکڑ کہتے ہیں کہ ”بھٹیوں کے چمنیوں سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی کا سبب بنتے ہوئے آب وہوا اور ماحول پر منفی اثرات مرتب کرتاہے جس سے جانداروں کی صحت متاثرہوتی ہے ۔درختوں پر پڑنے والے دھویں اور گرین گیسز سے درخت متاثر ہوتے ہیں ۔چونکہ درخت ماحول دوست ہونے کے ناطے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن کااخراج کرتے ہیں ۔
درختوں کی کٹائی کی صورت میں ہمارا ماحولیاتی نظام متاثر ہورہاہے ۔ماحولیاتی تبدیلی کی صورت میں بارشوں میں کمی یا اضافہ یابے وقت بارشیں ہوتی ہیں جوکہ ٹھیک نہیں ۔درختوں کی کٹائی روکنا ،درختوں کو گرین گیسز اور دھویں سے بچانااورمزید شجر کاری کرنا ماحول کو بہتر بناسکتاہے ۔”
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی شجر کاری مہم جاری ہے سال 2020-21کے دوران ٹین بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت بلوچستان میں 9لاکھ 4ہزار420درختیں لگائی گئی ہیں جبکہ 18لاکھ 15ہزار119درخت تقسیم کئے گئے ہیں سال 2019-20 کے دوران بلوچستان میں 24لاکھ 11ہزار240درخت لگائے گئے تھے۔
فاطمہ جناح جنرل اینڈ چیسٹ ہسپتال کوئٹہ کے ماہر امراض سینہ ڈاکٹر شیرین خان کہتے ہیں کہ ”فضائی آلودگی کے انسانی زندگی پر اثرات کے مختلف پہلو ہیں وہ لوگ جو پہلے سے سینے کے مرض یا پھر دمہ کی بیماری لاحق ہوںتو آلودگی ان کی بیماریوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔نہ صرف بھٹیاں بلکہ آگ سے اٹھنے والی دھواں ، گردوغباراورگھروں میں لکڑیوں پر روٹی پکانے والی خواتین دمہ اورسینے کے امراض کاشکار ہوتی ہیں ۔سانس کی نالی تنگ ہوجانے کی وجہ سے مریض کو سانس لینے میں شدید دشواری کاسامنا کرناپڑسکتاہے۔ ”
وہ مزید بتاتے ہیں کہ پوری دنیا میں بھٹیوں کے معیار کا تعین کیاگیاہے حکومت کو چاہیے کہ وہ بھٹی یا کرش پلانٹس کے حوالے سے قوانین کو پرعملدرآمد کرتے ہوئے ایس او پیز کو مزید سخت بنائیں ۔بھٹیوں ،کرش پلانٹس اور کانوں میں گردوغبار ،آلودگی سے ایسی بھی بیماریاں پھیلتی ہے اگر انسان ایک بار ان بیماریوں کاشکار ہوں توپھر وہ زندگی بھر اس بیماری سے متاثر رہے گا۔ماحولیاتی آلودگی میں بھٹیوں کے دھویں کے ساتھ ساتھ اس سے پیدا ہونے والی حرارت بھی خطرناک ہے ۔
مزدور وں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ورکرز فیڈریشن بلوچستان کے جنرل سیکرٹری پیر محمد کاکڑ بتاتے ہیں کہ بھٹی پر کام کرنے والوں کو مزدور کی حیثیت حاصل نہیں وہ آج بھی بھٹہ پر ڈیلی ویجز کے طور پر کام کررہے ہیںسوشل سیکورٹی اور یو بی آئی کے ساتھ رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی مزدور کو ملنے والی سہولیات ومراعات سے محروم ہیں چاہیے وہ کسی حادثے کی شکل میں ہو یا پھر کام کے دوران زخمی ہوجائے ایسے بھی حادثات رونما ہوجاتے ہیں جس میں مزدور اپنے جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں ۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ”بلوچستان میں بھٹیاں آج بھی پرانے نظام کے تحت کام کررہی ہے پنجاب میں بھٹیوں کو جدیدٹیکنالونی پر منتقل کردیاگیاہے جبکہ یہاں وہی نظام ہے دنیا نے بھٹی سسٹم کو زگ زیگ سسٹم پر تبدیل کیاہے محکمہ ماحولیات اس حوالے سے اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہی ۔بھٹیوں میں حفاظتی سامان کا فقدان ہے وہ صحت کی سہولیات سے محروم ہیں ۔
تاہم بھٹہ مالک ملک وارث خان کہتے ہیں کہ بجلی کی سہولت اور مالی امداد نہ ہونے کے باعث بھٹی کو زگ زیگ جیسے جدید طرز پر منتقل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں کیونکہ زگ زیگ سسٹم کے طرز پر بھٹی کو منتقل کرنے کیلئے 24گھنٹے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ملک وارث خان صوبائی سیکرٹری ماحولیات عبدالصبور کاکڑکے اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بھٹی (خشت)کی زگ زیگ سسٹم پر منتقلی سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہوگی لیکن بھٹہ خشت کی زگ زیگ طرز پر منتقلی کیلئے بجلی یا اس کے متبادل سولر سسٹم کے علاوہ جدید مشینری درکار ہے ۔
بھٹہ مالک ملک وارث خان مطالبہ کرتے ہیں کہ ماحول کو فضائی آلودگی سے بچانے کیلئے حکومت آسان اقساط پر قرضے یا پھر مشینری فراہم کی جائے اور بجلی کے متبادل کے طور پر شمسی توانائی کا نظام مہیا کرے تاکہ بجلی کی ضرورت کو پورا کیاجاسکے ۔بھٹیوں کے قریب کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے میڈیکل ایمرجنسی کی سہولیات نہیں ہے حکومت وقت ہمیں میڈیکل ایمرجنسی فراہم کرے تاکہ مزدوروں کی صحت کا تحفظ ممکن ہوں ۔
صوبائی سیکرٹری برائے ماحولیات وموسمیاتی تبدیلی عبدالصبور کاکڑ کہتے ہیں کہ ”بھٹیوں کو زگ زیگ سسٹم پر تبدیل کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر رقم درکار ہے بھٹیاں ایک نجی انڈسٹری ہے جسے سہولیات کی فراہمی محکمہ صنعت وتجارت اور مائنز نے کرنی ہیں ۔بھٹیاں شہر میں آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہی ہے فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے ہم نے یہ قدم اٹھایاہے کہ بھٹہ خشت کیلئے مزید این او سیز جاری نہیں کی جائیںگی البتہ جو بھٹی مالک اپنی بھٹی کو زگ زیگ طرز پرتبدیل کرے گا تو اسے ہی محکمہ ماحولیات کی جانب سے این او سی جاری کی جائیگی۔”
وہ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے اسٹیٹ بینک کے ذریعے کمرشل بینکوں کو ایک پالیسی دی تھی کہ آپ بھٹہ مالکان کو قرض دیں اگر اس پالیسی کے تحت بھٹہ مالکان کو قرض فراہم کیاجائے توان تمام بھٹیوں کو زگ زیگ سسٹم پرمنتقل کیاجاسکتاہے جس کا ایک تو معاشی فائدہ ہوگا جبکہ دوسری جانب آلودگی 70فیصد کم ہوجائے گی ۔
حالیہ سائنسی شواہد کی روشنی میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات کو بڑھانے کیلئے پاکستان کلین ایئر پروگرام پر نظرثانی کے تحت پنجاب میں 20ہزار روایتی بھٹوں میں سے 7ہزار896بھٹیوں کو سمارٹ ٹیکنالوجی (زگ زیگ )سسٹم میں تبدیل کردیاگیاہے تاکہ بھٹوں سے اڑھنے والی آلودگی کو کم کیاجاسکے حکومت کی جانب سے اس عمل کو دوسرے صوبوں میں بھی لاگو کرنے کا کہاجارہاہے ۔
عبدالصبور کاکڑ بتاتے ہیں کہ بھٹیوں میں جلنے والی کوئلے کی کوالٹی کی جتنی بہتر ہوگی اتنا ہی کم آلودگی پھیلے گی اور جتنی کم کوالٹی کی کوئلہ ہوگی اس کا پھر ماحول پر اتنا ہی زیادہ اثر پڑے گا ۔اس کے ساتھ لیبر کی تربیت بھی لازمی ہے جتنا تربیت یافتہ لیبر ہوگا اس کے اثرات پھر ماحول پر مثبت پڑیںگے کیونکہ یہاں بھٹیوں میں موجود کوئلہ اگر مکمل جل جائے تو اس کی آلودگی کم ہوگی اور اگر کم کوئلہ جلے گی تو آلودگی زیادہ پھیلے گی ۔بھٹیوں میں غیر تربیت یافتہ لیبر ماحول کیلئے بہت زیادہ خطرناک ہوتاہے ۔
اسٹیٹک اسٹیشنز کے بجائے اب موبائل اسٹیشن کی سمری بھیجی ہے تاکہ موبائل اسٹیشن کے ذریعے زیادہ زیادہ علاقوں کی ماحولیاتی آلودگی کی جانچ پڑتال کی جاسکے گی ۔
ٹین بلین ٹری منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر محمد نیاز خان کاکڑ کہتے ہیں کہ “موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں شجرکاری سے نہ صرف ماحول بہتری کی جانب گامزن ہوگا بلکہ حیوانات اور نباتات بھی محفوظ ہونگے جو دنیا کی خوبصورتی ہے۔