بیٹی کی پیدائش پر خوشی صرف اس کی ماں کو تھی کیونکہ وہ اب شدید تکلیف سے نجات حاصل کرچکی ہے مگر وہ یہ سوچ کر بھی ہلکان ہوئے جارہی تھی کہ نہ جانے اس کا مستقبل کیا ہوگا کیونکہ وہ ایک فرسودہ روایات والے قبیلے کا حصہ تھی۔
مریم(فرضی نام) کی پیدائش سے قبل اُس کی ماں نے بہت سی پریشانیوں کا سامنا کیا، حاملہ ہونے کے باوجود وہ پابند تھی کہ چار سے پانچ کلو میٹر پیدل چل کر جائے اور وہاں سے گھر والوں کے لیے پانی جمع کر کے لائے تاکہ گھر کے مردوں کو مشکلات پیش نہ آسکیں۔
اس علاقے (حاجی سفیع گوٹھ) کے مرد بھی اس قدر بے حس ہیں جو خواتین کی بیماری پریشانی سمجھنے کےلیے کسی صورت تیار نہیں ہوتے‘ ہاں مگر یہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ خواتین کو تنبیہہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر اُن کو پیاس یا کسی ضروت کے وقت پانی نہ ملا تو پھر اچھا نہ ہوگا۔
اس گاؤں کی ہر لڑکی اپنے گھر کے مردوں کی خواہشات پوری کرنے کی تیاری بچپن سے ہی شروع کردیتی ہے، جو وقت ننھی کلیوں کی آبیاری کا ہوتا ہے اُس وقت ان کچے قدموں کو تپتے ریت کے میدانوں میں برتن لے کر بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے باپ، بھائی اور شوہر کے لیے پانی لائیں اور اگر وہ بہت چھوٹی ہیں تو کم از کم اپنے استعمال کے لیے تو پانی بھر لائیں۔
جدید دور کے باوجود ناخواندگی کے اندھیروں میں رہنے والی یہ خواتین اب زندگی کا مقصد دو ہی چیزوں کو سمجھتی ہیں اور پھر اُسی اندھیرے سے قبر کے اندھیرے میں چلی جاتی ہیں، پہلا کام پانی بھرنا ‘ دوسرا کام بیٹی کا جہیز تیار کرنا۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ حج کر کے آنے والے بااثر شخص کے نام پر رکھے جانے والے اس علاقے (حاجی شفیع گوٹھ) میں خلافِ شریعت خواتین کا استحصال اس قدر ہے کہ اُن کے مرنے پر مرد صرف یہ افسوس کرتے ہیں کہ اب اُن کے لیے پانی لے کر کون لائے گا؟۔
پانی بھر کے لانے کی اذیت ناک مشقت اور امور خانہ داری سے فارغ ہوکر یہاں کی خواتین اپنی بچیوں کی شادی کی تیاری کرتی ہیں جس کے لیے وہ مخصوص ریلیاں اور کڑھائی والے تکیے تیار کرتی ہیں، خوبصورت انداز میں تیار کیے جانے والے ان تکیوں کو اگر شہر میں فروخت کیا جائے تو پانچ سے 10 ہزار کے درمیان ان کی رقم حاصل ہوسکتی ہے تاہم خواتین کی سادگی یہ ہے کہ انہیں فروخت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
پاکستان کی عورت اسلام کے آفاقی حقوق سے محروم کیوں؟
وقت کی رفتار کو پہیے لگ گئے اور مریم اب بچپنے کے تمام مراحل سے گزر چکی ہے‘ اُس نے امور خانہ داری اور سب سے اہم کام پانی بھرنا سیکھ لیا ہے، اُس کے بیاہنے (شادی) کی باتیں بھی چل نکلی ہیں‘ وہ ہر روز اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں سوچتی اور جہیز کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔
مریم سے اُس کی ماں نے اب تک ایک بات چھپا کر رکھی ہے کہ جس جہیز یعنی تکیوں اور چادروں کو محنت سے تیار کیا گیا ہے‘ وہ دراصل اُس کے استعمال کے نہیں ہیں مگر ان کی تیاری میں مریم جیسی غیر شادی شدہ لڑکیوں کو شامل کرنے کا محض ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کل جب اُن کی بیٹیاں پیدا ہوں تو وہ بھی اسی طرح سے تیاری کردیں۔
مریم یا گاؤں کی تمام لڑکیاں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل بوڑھی ہوچکی ہیں اور سولہ سال کی عمر میں کس طرح کے شیخ و چنچل جذبات دل میں مچلتے ہیں‘ یہ لڑکیا ان سے واقف نہیں۔ بلکہ ان کی زندگی کا واحد مقصد پانی بھر کرلانے میں اپنی ماں کی مدد کرنا ہوتا ہےتاکہ اُن کی والدہ کا بوجھ کم ہو۔
جہیز دیکھ کر خوش ہونے والی بدقسمتی لڑکیوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ شادی کے تین دن بعد ہی اُن کی میکے والی مصروفیات چلچلاتی دھوپ میں پانی بھر کے لانا، امور خانہ داری سرانجام دینا ہے‘ رہی جہیز کی بات تو وہ ان بدقسمت لڑکیوں کے لیے تھوڑا تیار کیا گیا ہے‘ وہ تو صدیوں سے اس علاقے پر مسلط بے سبب رسم ورواج کی پاسداری اور گاؤں کے مکینوں کے بیچ اپنی دھاک قائم کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے‘ جس کواستعمال کرنے کے لیے فرصت ان مظلوم خواتین کو زندگی بھر نہیں ملتی۔